EN हिंदी
آزادوں کا گیت | شیح شیری
aazadon ka git

نظم

آزادوں کا گیت

اصغر ندیم سید

;

میرے دن سیراب ہوئے ہیں
نیندیں گھور سمندر جیسی

میری آنکھ سے لپٹی ہیں
صبح کی ساعت آزادوں کا گیت بنی ہے

ساتھ چلی ہے سیاحوں کے رستے پر
میں ایک سوار

صدا کے رتھ پر بیٹھ کے جاؤں
سورج مکھی کے جلسے میں

بات کروں تہواروں کی
جو میرے وصل کے دروازوں تک آ پہنچے ہیں

میری عمر کے کھلیانوں میں
جن کی فصلیں نئے نصاب سے اتری ہیں

بات کروں اس نسبت کی
جو پھول اترتے موسم کی پوشاک میں آئی

تیرے دل میں میرے دل میں
کیسے اپنی بھاشا سے میں شہد بناؤں

کیسے دودھ کشید کروں
ان باتوں سے جو سب کی جانی بوجھی ہیں

میرے دن سیراب ہوئے ہیں
جیسے سورج اور کبوتر اڑ جاتے ہیں

اپنے اپنے ڈربوں سے
جیسے پانی بہہ جاتا ہے دریاؤں کے آنگن سے

ایسے ہی میرے دن کیا معلوم؟
کہاں تک جائیں

کن رشتوں میں جاگنا چاہیں