EN हिंदी
آزادی سے نیندوں تک | شیح شیری
aazadi se nindon tak

نظم

آزادی سے نیندوں تک

تنویر انجم

;

زندگی کی چٹانوں سے
سزاؤں کا سمندر ٹکراتا ہے

اور سفید چٹانیں سمندر کی کالی کر دینے والی طاقت سے بے خبر
خوابوں کے غرور سے لبریز ہیں

پانی چٹانوں میں راستے بناتا رہتا ہے
اور ایسے میں کوئی نہیں جانتا

ہم آزادی کے جوگ میں
تنہائی کے کس کس جنگل میں بھٹکے ہیں

آزادی کے لباس کو اپنا بدن سمجھ کر
وحشی سناٹوں کی آمد سے بے خبر

ہم کہاں کہاں بھٹکے ہیں
اور جب لباس پھٹ جاتے ہیں

ہم ان چھتڑوں کو اپنے بے لباس تنہائیوں میں
یوں چھپا لیتے ہیں

جیسے زندہ ماں کی آنکھیں مردہ بچے کی آخری دیدار کو چھپا لیتی ہیں
تو ایسے میں سمندر سیلاب ہو جاتا ہے

اور سفید چٹانیں
سزاؤں میں دفن

اپنے علاوہ سب کچھ بھول جانے پر مجبور ہو جاتی ہیں
ہم سیلاب میں نہ بہے جانے کا دکھ لیے

نیندوں تک آ جاتے ہیں
اور ہم چٹانوں سے گزرنے والے پانی کے راستے بند نہیں کر سکتے تو

ہنس دیتے ہیں
اور نیندوں کی بھیک جمع کرتے کرتے

وحشی سناٹوں کی آمد کے ہول میں
ہم سونا بھول جاتے ہیں