شہر لا مکاں سے ہوں
جس میں اک مکاں میرا
خواب سے ابھرتا ہے
دودھیا سویرا سا
دھیان میں نکھرتا ہے
جو حدوں سے عاری ہے
انتہا نہیں رکھتا
چوکھٹیں دریچے در
کیا گمان میں آئیں
(صحن آنگن اور دیوار کا خیال ہی بے کار)
چار سمت کی دیوار
چاہے کتنی پھیلی ہو
آپ کا احاطہ ہے
آپ کا ہے گھیراؤ
کیوں گرفت میں آؤں
کیوں مجھے کوئی گھیرے
صرف ایک خواہش ہے
بے حدود آزادی!
نظم
آزادی
احسان اکبر