EN हिंदी
آزادیٔ وطن | شیح شیری
aazadi-e-watan

نظم

آزادیٔ وطن

مخدومؔ محی الدین

;

کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے

قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی

یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں

جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ہے

زمین پاک اب ناپاکیوں کو ڈھو نہیں سکتی
وطن کی شمع آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی

کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے

وہ ہندی نوجواں یعنی علمبردار آزادی
وطن کی پاسباں وہ تیغ جوہر دار آزادی

وہ پاکیزہ شرارہ بجلیوں نے جس کو دھویا ہے
وہ انگارہ کہ جس میں زیست نے خود کو سمویا ہے

وہ شمع زندگانی آندھیوں نے جس کو پالا ہے
اک ایسی ناؤ طوفانوں نے خود جس کو سنبھالا ہے

وہ ٹھوکر جس سے گیتی لرزہ بر اندام رہتی ہے
وہ دھارا جس کے سینے پر عمل کی ناؤ بہتی ہے

چھپی خاموش آہیں شور محشر بن کے نکلی ہیں
دبی چنگاریاں خورشید خاور بن کے نکلی ہیں

بدل دی نوجوان ہند نے تقدیر زنداں کی
مجاہد کی نظر سے کٹ گئی زنجیر زنداں کی

کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے

کہو ہندوستاں کی جے......