تمہاری زباں سے گرا
ایک شوخ لفظ
بارش
یوں لگا کہ مجھے چھو گیا ہو جیسے
کھڑکی کے باہر بوندوں کی ٹپٹپاہٹ
کانوں سے ہوتی ہوئی دھڑکن تک آ پہونچی
ایک سنگیت ایک راگ تھا
دونوں میں
پتوں پر پانی کی بوندیں یوں لگی مانو
تم نے چمکتی سی کچھ خواہشیں رکھی ہوں
گیلی گیلی یادوں کی کچھ پھوہاریں
سفید جھینے پردوں سے آتی ٹھنڈی ہوا
دور تک پھیلے ہوئے دیودار کے درخت
اور ان کی نو عمر ٹہنیاں کی سرگوشیاں
پیروں کی انگلیوں میں گدگدی کر گئی
سنو نا
میں کسمسا جاتی ہوں
یوں نہ میرا نام لیا کرو
نظم
آواز
ورشا گورچھیہ