خبر نہیں تم کہاں ہو یارو
ہماری افتاد روز و شب کی
تمہیں خبر مل سکی، کہ تم بھی
رہین دست خزاں ہو یارو
دنوں میں تفریق مٹ چکی ہے
کہ وقت سے خوش گماں ہو یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں
کہ بے سر و سائباں ہو یارو
ہماری افتاد روز و شب میں
نہ جانے کتنی ہی بار اب تک
دھنک بنی اور بکھر چکی ہے
عروس شب اپنی خلوتوں سے
سحر کو محروم کر چکی ہے
دہکتے صحرا میں دھوپ کھا کر
شفق کی رنگت اتر چکی ہے
بہار کا تعزیہ اٹھائے
نگار یک شب گزر چکی ہے
امید نو روز ہے کہ تم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو
تمہاری یادوں کے قافلے کا
تھکا ہوا اجنبی مسافر
ہر اک کو آواز دے رہا ہے
خفا ہو یا بے زباں ہو یارو
نظم
آواز کے سائے
مصطفی زیدی