EN हिंदी
آوارہ | شیح شیری
aawara

نظم

آوارہ

اختر پیامی

;

خوب ہنس لو مری آوارہ مزاجی پر تم
میں نے برسوں یوں ہی کھائے ہیں محبت کے فریب

اب نہ احساس تقدس نہ روایت کی فکر
اب اجالوں میں نہ کھاؤں گی میں ظلمت کے فریب

خوب ہنس لو کہ مرے حال پہ سب ہنستے ہیں
میری آنکھوں سے کسی نے بھی نہ آنسو پونچھے

مجھ کو ہمدرد نگاہوں کی ضرورت بھی نہیں
اور شعلوں کو بڑھاتے ہیں ہوا کے جھونکے

خوب ہنس لو کہ تکلف سے بہت دور ہوں میں
میں نے مصنوعی تبسم کا بھی دیکھا انجام

مجھ سے کیوں دور رہو آؤ میں آوارہ ہوں
اپنے ہاتھوں سے پلاؤ تو مئے تلخ کا جام

خوب ہنس لو کہ یہی وقت گزر جائے گا
کل نہ وارفتگئ شوق سے دیکھے گا کوئی

اتنی معصوم لطافت سے نہ کھیلے گا کوئی
خوب ہنس لو کہ یہی لمحے غنیمت ہیں ابھی

میری ہی طرح سے تم بھی تو ہو آوارہ مزاج
کتنی بانہوں نے تمہیں شوق سے جکڑا ہوگا

کتنے جلتے ہوئے ہونٹوں نے لیا ہوگا خراج
خوب ہنس لو تمہیں بیتے ہوئے لمحوں کی قسم

میری بہکی ہوئی باتوں کا برا مت مانو
میرے احساس کو تہذیب کچل دیتی ہے

تم بھی تہذیب کے ملبوس اتارو پھینکو
خوب ہنس لو کہ مرے لمحے گریزاں ہیں اب

میری رگ رگ میں ابھی مستیٔ صہبا بھر دو
میں بھی تہذیب سے بیزار ہوں تم بھی بیزار

اور اس جسم برہنہ کو برہنہ کر دو