EN हिंदी
آتش خاموش | شیح شیری
aatish-e-KHamosh

نظم

آتش خاموش

عزیز لکھنوی

;

سر چشمۂ اخلاق وفا کیش و وفا کوش
اے مشرق اشراق صفا ابر خطا پوش

یوں تیرے دل صاف میں اشراق محبت
جس طرح کہ لو صبح کو دے در نیا گوش

میں کون ہوں اک دل ہوں جسے ضبط نے مارا
کر دے گی فنا مجھ کو مری کوشش خاموش

وہ دل ہوں عبارت جو ہے نظم ابدی سے
اک خون کا نقطہ ہوں میں پر معنی و پرجوش

جبریل مرے ساتھ رہے روز ازل سے
میخانۂ عرفاں میں شب و روز قدح نوش

کچھ منہ سے نکل جائیں نہ سمجھی ہوئی باتیں
رہنے دو مجھے مجلس مے میں یونہی مدہوش

سرسبز ہوں ظاہر میں مگر اے دل خوں گرم
جس طرح حنا میں ہے نہاں آتش خاموش

دل پر یہ ستم کیوں نہ ہو ہم جنس پہ تاثیر
کعبہ اسی غم میں نظر آتا ہے سیہ پوش

ایوب نہیں ہوں کوئی معصوم نہیں ہوں
تا چند مظالم پہ رہوں ساکت و خموش

ہیں جتنے اقارب وہ اقارب سے ہیں بد تر
احباب ہیں وہ خود غرض و زود فراموش

دل صاف نہیں سب ہیں سخن ساز و سخن چیں
یہ مہر تو ہے زہر اگر نیش میں ہو نوش

کہتے ہیں جسے دوست وہ اس دور میں عنقا
سمجھے ہیں جسے مہر وہ اس عہد میں روپوش

کس دور میں آئے ہیں ہم اے مجلس ساقی
جب رند خرابات نشیں ہو گئے مدہوش

دل کیا مری آنکھوں کا ہے ٹوٹا ہوا سوتا
طوفان اٹھا دیں گے یہی چشمۂ خس پوش

ٹھوکر سے جلاتا ہوں مضامین کہن کو
ہے فتنۂ محشر مری اتری ہوئی پاپوش

ہم سنگ جواہر کبھی پتھر نہیں ہوتا
ہر چند تراشے کوئی صناع صفا کوش

گو مجھ کو خدا داد طبیعت نے سنوارا
مجرم ہوں اگر ہوں کبھی احسان فراموش

ترکش میں مرے تیر بہت کم ہیں مگر ہیں
ایسے کہ اڑا دیں قدر انداز کے جو ہوش

پندار خودی ہے عزیز ان کو تو ہمیں کیا
ہم عشق کے بندے ہیں وفا کیش و وفا کوش