EN हिंदी
آشوب آگہی | شیح شیری
aashob-e-agahi

نظم

آشوب آگہی

ادا جعفری

;

جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب

آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں

میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے

میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے
جو فقط لوح جاں پر لکھے رہ گئے