ایک رو پہلی سی چوٹی پر
جگ مگ جگ مگ جاگ رہا ہے آس محل
اونچی اونچی رنگ رنگیلی دیواریں ہیں
چاروں جانب ہر پتھر پر
مانی اور بہزاد سے بڑھ کر
نئے انوکھے نقش بنے ہیں
دیواریں ہیں کتنی انوکھی
جن میں لاکھوں طاق بنے ہیں
ان طاقوں میں میری آنکھیں
لرزاں لرزاں دیپک بن کر
ہر دم جلتی رہتی ہیں
اور یہ میرے نرمل آنسو
ڈرے ڈرے سے سہمے سہمے چہرے بن کر
جانے کس کو جھانکتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں
بڑے بڑے آسیب زدہ ان کمروں میں
بھولی بسری یادیں اس کی
دبے دبے پاؤں چلتی ہیں
جن کی آہٹ روح کے سونے دالانوں تک
چیخیں بن کر آتی ہے
جانے کب سے آس محل سے
میں آنکھیں اور آنسو بن کر
ویراں ویراں سونا سونا
اندھا رستہ دیکھ رہا ہوں
نظم
آس محل
راشد حسن رانا