جانے کس کی تلاش ان کی آنکھوں میں تھی
آرزو کے مسافر
بھٹکتے رہے
جتنا بھی وہ چلے
اتنے ہی بچھ گئے
راہ میں فاصلے
خواب منزل تھے
اور منزلیں خواب تھیں
راستوں سے نکلتے رہے راستے
جانے کس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
جن پہ سب چلتے ہیں
ایسے سب راستے چھوڑ کے
ایک انجان پگڈنڈی کی انگلی تھامے ہوئے
اک ستارے سے
امید باندھے ہوئے سمت کی
ہر گماں کو یقیں مان کے
اپنے دل سے
کوئی دھوکا کھاتے ہوئے جان کے
صحرا صحرا
سمندر کو وہ ڈھونڈتے
کچھ سرابوں کی جانب
رہے گامزن
یوں نہیں تھا
کہ ان کو خبر ہی نہ تھی
یہ سمندر نہیں
لیکن ان کو کہیں
شاید احساس تھا
یہ فریب
ان کو محو سفر رکھے گا
یہ سبب تھا
کہ تھا اور کوئی سبب
جو لئے ان کو پھرتا رہا
منزلوں منزلوں
راستے راستے
جانے کس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
اکثر ایسا ہوا
شہر در شہر
اور بستی بستی
کسی بھی دریچے میں
کوئی چراغ محبت نہ تھا
بے رخی سے بھری
ساری گلیوں میں
سارے مکانوں کے
دروازے یوں بند تھے
جیسے اک سرد
خاموش لہجے میں
وہ کہہ رہے ہوں
مروت کا اور مہربانی کا مسکن
کہیں اور ہوگا
یہاں تو نہیں ہے
یہی ایک منظر سمیٹے تھے
شہروں کے پتھریلے سب راستے
جانے کس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
اور کبھی یوں ہوا
آرزو کے مسافر تھے
جلتی سلگتی ہوئی دھوپ میں
کچھ درختوں نے سائے بچھائے مگر
ان کو ایسا لگا
سائے میں جو سکون
اور آرام ہے
منزلوں تک پہنچنے نہ دے گا انہیں
اور یوں بھی ہوا
مہکی کلیوں نے خوشبو کے پیغام بھیجے انہیں
ان کو ایسا لگا
چند کلیوں پہ کیسے قناعت کریں
ان کو تو ڈھونڈھنا ہے
وہ گلشن کہ جس کو
کسی نے ابھی تک ہے دیکھا نہیں
جانے کیوں تھا انہیں اس کا پورا یقیں
دیر ہو یا سویر ان کو لیکن کہیں
ایسے گلشن کے مل جائیں گے راستے
جانے کس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
دھوپ ڈھلنے لگی
بس ذرا دیر میں رات ہو جائے گی
آرزو کے مسافر جو ہیں
ان کے قدموں تلے
جو بھی اک راہ ہے
وہ بھی شاید اندھیرے میں کھو جائے گی
آرزو کے مسافر بھی
اپنے تھکے ہارے بے جان پیروں پہ
کچھ دیر تک لڑکھڑائیں گے
اور گر کے سو جائیں گے
صرف سناٹا سوچے گا یہ رات بھر
منزلیں تو انہیں جانے کتنی ملیں
یہ مگر
منزلوں کو سمجھتے رہے جانے کیوں راستے
جانے کس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
اور پھر اک سویرے کی اجلی کرن
تیرگی چیر کے
جگمگا دے گی
جب ان گنت رہ گزاروں پہ بکھرے ہوئے
ان کے نقش قدم
عافیت گاہوں میں رہنے والے
یہ حیرت سے مجبور ہو کے کہیں گے
یہ نقش قدم صرف نقش قدم ہی نہیں
یہ تو دریافت ہیں
یہ تو ایجاد ہیں
یہ تو افکار ہیں
یہ تو اشعار ہیں
یہ کوئی رقص ہیں
یہ کوئی راگ ہیں
ان سے ہی تو ہیں آراستہ
ساری تہذیب و تاریخ کے
وقت کے
زندگی کے سبھی راستے
وہ مسافر مگر
جانتے بوجھتے بھی رہے بے خبر
جس کو چھو لیں قدم
وہ تو بس راہ تھی
ان کی منزل دگر تھی
الگ چاہ تھی
جو نہیں مل سکے اس کی تھی آرزو
جو نہیں ہے کہیں اس کی تھی جستجو
شاید اس واسطے
آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے
نظم
آرزو کے مسافر
جاوید اختر