EN हिंदी
آرام ہے ہمارا | شیح شیری
aaram hai hamara

نظم

آرام ہے ہمارا

قیس جالندھری

;

نہ رکھ نیام میں رہنے دے بے نیام ابھی
تو اس کو ہاتھ میں کچھ دیر اور تھام ابھی

کچھ اور لینا ہے خنجر سے تجھ کو کام ابھی
عدو کا کام ہوا ہے کہاں تمام ابھی

محافظ وطن آرام ہے حرام ابھی
ابھی تو چھائی ہوئی ہے افق پہ غم کی گھٹا

ابھی تو شعلہ فشاں ہے ہمالیہ کی فضا
ابھی تو چلتی ہے سرحد پر تند و تیز ہوا

سکوں کا خواب ہے یک سرخیان خام ابھی
محافظ وطن آرام ہے حرام ابھی

ابھی تو جمع ہے سرحد پہ لشکر اغیار
ابھی تو آنکھیں دکھاتا ہے غاصب غدار

ابھی تو مائل شر ہے جنون فتنہ شعار
اسے پلانا ہے زہر اجل کا جام ابھی

محافظ وطن آرام ہے حرام ابھی
کوئی کلام نہیں ہے تری شجاعت میں

نہ آئی پاؤں میں لغزش ہزار آفت میں
تو پیش پیش رہا ہے وطن کی خدمت میں

مگر ہے دور بہت امن کا مقام ابھی
محافظ وطن آرام ہے حرام ابھی

اٹھے جو فتنۂ تازہ اسے دبانا ہے
ستم طراز کو میدان سے بھگانا ہے

ابھی تو حملے کا بدلہ تجھے چکانا ہے
نہ لا زبان پہ آرام کا تو نام ابھی

محافظ وطن آرام ہے حرام ابھی