صبح سے شام تک
لکڑیاں چیرنا
اس کا برسوں کا معمول ہے
اس کا جسم
لکڑی کے برادے میں
دفن ہونے لگا ہے
اسے روٹی بھی
برادے کی بنی ہوئی لگتی ہے
اس کے ہاتھ بیوی کو
سوکھے درخت کی طرح محسوس کرتے ہیں
لکڑیوں کے درمیان رہتے رہتے
وہ
خود کو بھی
لکڑی کا آدمی سمجھنے لگا ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
اس کا یہ خیال مضبوط ہوتا جاتا ہے
اور ایک دن
آرا مشین بھی
اس سے متفق ہو جاتی ہے
نظم
آرا مشین کا کاریگر
مصطفیٰ ارباب