EN हिंदी
آپ بیتی | شیح شیری
aap-biti

نظم

آپ بیتی

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

1
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں

زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے
شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے

یاں تو ایک عمر اسی طرح سے جلتے گزری
کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر

اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری
کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں

کاش میں ایسی کہانی کو سنا بھی سکتا
طعنہ زن ہیں جو مرے حال پہ ارباب نشاط

ان کو اک بار میں اے کاش رلا بھی سکتا
میں کہ شاعر ہوں میں پیغام بر فطرت ہوں

میری تخئیل میں ہے ایک جہان بیدار
دسترس میں مری نظارۂ گلہائے چمن

میرے ادراک میں ہیں کن فیکوں کے اسرار
مرے اشعار میں ہے قلب حزیں کی دھڑکن

میری نظموں میں مری روح کی دل دوز پکار
پھر بھی رہ رہ کے کھٹکتی ہے مرے دل میں یہ بات

کہ مرے پاس تو الفاظ کا اک پردہ ہے
صرف الفاظ سے تصویر نہیں بن سکتی

صرف احساس میں حالات کی تفسیر کہاں
صرف فریاد میں زخموں کی وہ زنجیر کہاں

ایسی زنجیر کہ ایک ایک کڑی میں جس کی
کتنی کھوئی ہوئی خوشیوں کے مناظر پنہاں

کتنی بھولی ہوئی یادوں کے پر اسرار کھنڈر
کتنے اجڑے ہوئے لوٹے ہوئے سنسان نگر

کتنے آتے ہوئے جاتے ہوئے چہروں کے نقوش
کتنے بنتے ہوئے مٹتے ہوئے لمحات کا راز

کتنی الجھی ہوئی راہوں کے نشیب اور فراز
2

کیا کہوں مجھ کو کہاں لائی مری عمر رواں
آنکھ کھولی تو ہر اک سمت اندھیروں کا سماں

رینگتی اونگھتی مغموم سی اک راہ گزار
گرد آلام میں کھویا ہوا منزل کا نشاں

گیسوئے شام سے لپٹی ہوئی غم کی زنجیر
سینۂ شب سے نکلتی ہوئی فریاد و فغاں

ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہواؤں میں وہ غربت کی تھکن
در و دیوار پہ تاریک سے سائے لرزاں

کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیں
ٹمٹماتے سے دیے چار طرف نوحہ کناں

مضمحل چہرے مصائب کی گراں باری سے
دل مجروح سے اٹھتا ہوا غم ناک دھواں

یہی تاریکیٔ غم تو مرا گہوارہ ہے
میں اسی کوکھ میں تھا نور سحر کے مانند

ہر طرف سوگ میں ڈوبا ہوا میرا ماحول
میرا اجڑا ہوا گھر میرؔ کے گھر کے مانند

اک طرف عظمت اسلاف کا ماتھے پہ غرور
اور اک سمت وہ افلاس کے پھیلے ہوئے جال

بھوک کی آگ میں جھلسے ہوئے سارے ارماں
قرض کے بوجھ سے جینے کی امنگیں پامال

وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے کچھ پیار کے گیت
مہر و اخلاص زمانے کی جفاؤں سے نڈھال

بھائی بھائی کی محبت میں نرالے سے شکوک
نگہ غیر میں جس طرح انوکھے سے سوال

''ایک ہنگامے پہ موقوف تھی گھر کی رونق''
مفلسی ساتھ لیے آئی تھی اک جنگ و جدال

فاقہ مستی میں بکھرتے ہوئے سارے رشتے
تنگ دستی کے سبب ساری فضائیں بے حال

اک جہنم کی طرح تھا یہ مرا گہوارہ
اس جہنم میں میرے باپ نے دم توڑ دیا

ٹوٹ کر رہ گئے بچپن کے سہانے سپنے
مجھ سے منہ پھیر لیا جیسے مری شوخی نے

میرے ہنستے ہوئے چہرے پہ اداسی چھائی
جیسے اک رات بھیانک مرے سر پر آئی

راہیں دشوار مگر راہنما کوئی نہ تھا
سامنے وسعت افلاک خدا کوئی نہ تھا

میرے اجداد کی میراث یہ ویران سا گھر
جس کو گھیرے ہوئے ہر سمت تباہی کے بھنور

جس کی چھت گرتی ہوئی ٹوٹا ہوا دروازہ
ہر طرف جیسے بکھرتا ہوا اک شیرازہ

نہ کہیں اطلس و کمخواب نہ دیبا و حریر
ہر طرف منہ کو بسورے ہوئے جیسے تقدیر

مجھ کو اس گھر سے محبت تو بھلا کیا ہوتی
یاں اگر دل میں نہ جینے کی تمنا ہوتی

یہ سمجھ کر کہ یہی ہے مری قسمت کا لکھا
اس کی دیوار کے سائے میں لپٹا رہتا

لیکن اس دل کی خلش نے مجھے بیدار کیا
مجھ کو حالات سے آمادۂ پیکار کیا

بے کسی رخت سفر بن کر مرے ساتھ چلی
یاد آئی تھی مجھے گاؤں کی ایک ایک گلی

لہلہاتی ہوئی فصلیں وہ مرے آم کے باغ
وہ مکانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ

دور تک پانی میں پھیلے ہوئے وہ دھان کے کھیت
اور تالاب کنارے وہ چمکتی ہوئی ریت

میرے ہم عمر وہ ساتھی وہ مرے ہمجولی
میرے اسکول کے وہ دوست مری وہ ٹولی

ایک بار ان کی نگاہوں نے مجھے دیکھا تھا
جیسے اک بار مرے دل نے بھی کچھ سوچا تھا

''میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو''