جب ہم درخت بننا چاہتے ہیں
اور بن جاتے ہیں
لیکن
ہم کسی کو سایہ نہیں دے پاتے
کوئی پرندہ ہماری شاخوں پر گیت نہیں گاتا
کوئی گلہری ہمارے تنے میں اپنا گھر نہیں بناتی
ہماری کونپلوں پر کبھی اوس نہیں چمکتی
اور ہزاروں سال تک ہمیں دیمک نہیں لگتی
جب ہم راستہ بن جانا چاہتے ہیں
اور بن جاتے ہیں ایک پل
اور ساری زندگی
ایک ہی جگہ گزار دیتے ہیں
اور سب ہمیں پار کر کے زندگی بھر کے لیے
بچھڑتے رہتے ہیں
کسی خانہ جنگی میں ہمیں آگ نہیں لگتی
اور ہمارے ٹکڑے دور دور تک
ایک ساتھ نہیں بہتے
جب ہم سمندر بننا چاہتے ہیں
اور محض ایک آنسو بن کے
کسی رومال میں جگہ بنا لیتے ہیں
اور کوئی اسے سینے سے نہیں لگاتا
اپنی کلائی پر نہیں باندھتا
کوئی اسے جلا کے راکھ
کسی زخم میں نہیں بھرتا
جب ہم ایک کہانی بننا چاہتے ہیں
اور صرف ایک لفظ بن کے
سرد ہونٹوں سے ادا ہوتے ہیں
اور پھر ہمیشہ خلاؤں میں بھٹکتے رہتے ہیں
یا فضا میں گونجتے رہتے ہیں
یا شاید یہ لفظ دل کی گہرائی سے
کبھی باہر نہیں نکل پاتا
اور ہمیشہ کے لیے
ہماری طرح
فراموش کر دیا جاتا ہے
نظم
آنسو کی وجہ
ذیشان ساحل