EN हिंदी
آنسو | شیح شیری
aansu

نظم

آنسو

جاوید اختر

;

کسی کا غم سن کے
میری پلکوں پہ

ایک آنسو جو آ گیا ہے
یہ آنسو کیا ہے

یہ آنسو کیا اک گواہ ہے
میری درد مندی کا میری انسان دوستی کا

یہ آنسو کیا اک ثبوت ہے
میری زندگی میں خلوص کی ایک روشنی کا

یہ آنسو کیا یہ بتا رہا ہے
کہ میرے سینے میں ایک حساس دل ہے

جس نے کسی کی دل دوز داستاں جو سنی
تو سن کے تڑپ اٹھا ہے

پرائے شالوں میں جل رہا ہے
پگھل رہا ہے

مگر میں پھر خود سے پوچھتا ہوں
یہ داستاں تو ابھی سنی ہے

یہ آنسو بھی کیا ابھی ڈھلا ہے
یہ آنسو

کیا میں یہ سمجھوں
پہلے کہیں نہیں تھا

مجھے تو شک ہے کہ یہ کہیں تھا
یہ میرے دل اور میری پلکوں کے درمیاں

اک جو فاصلہ ہے
جہاں خیالوں کے شہر زندہ ہیں

اور خوابوں کی تربتیں ہیں
جہاں محبت کے اجڑے باغوں میں

تلخیوں کے ببول ہیں
اور کچھ نہیں ہے

جہاں سے آگے ہیں
الجھنوں کے گھنیرے جنگل

یہ آنسو
شاید بہت دنوں سے

وہیں چھپا تھا
جنہوں نے اس کو جنم دیا تھا

وہ رنج تو مصلحت کے ہاتھوں
نہ جانے کب قتل ہو گئے تھے

تو کرتا پھر کس پہ ناز آنسو
کہ ہو گیا بے جواز آنسو

یتیم آنسو یسیر آنسو
نہ معتبر تھا

نہ راستوں سے ہی با خبر تھا
تو چلتے چلتے

وہ تھم گیا تھا
ٹھٹھک گیا تھا

جھجھک گیا تھا
ادھر سے آج اک کسی کے غم کی

کہانی کا کارواں جو گزرا
یتیم آنسو نے جیسے جانا

کہ اس کہانی کی سر پرستی ملے
تو ممکن ہے

راہ پانا
تو اک کہانی کی انگلی تھامے

اسی کے غم کو رومال کرتا
اسی کے بارے میں

جھوٹے سچے سوال کرتا
یہ میری پلکوں تک آ گیا ہے