EN हिंदी
آنسوؤں کے رتجگوں سے | شیح شیری
aansuon ke ratjagon se

نظم

آنسوؤں کے رتجگوں سے

عین تابش

;

سارے منظر ایک جیسے
ساری دنیا ایک سی

ناشپاتی کے درختوں سے
کھجوروں کی گھنی شاخوں تلک

دنیا اچانک ایک جیسی ہو گئی ہے
مصر کے اہرام کی محزوں فضائیں

دم بخود ہیں کوفہ و بغداد کے بازار میں
کاظمین و مشہد اعراق سے نوحے نکل کر

سرحد لبنان تک پہنچے ہوئے ہیں
شہر دلی کے اندھیرے

ظلمت لاہور سے ملنے لگے ہیں
شور کابل کا سنائی دیتا ہے

برطانیہ کی محفلوں میں
خواہش نیویارک زندہ ہوتی ہے

ڈھاکے کی پرانی دل ربا گلیوں میں
گویا ساری دنیا ایک جیسی ہو گئی ہے

سارے منظر ایک سے
اجڑی ہوئی آنکھوں میں سارے خواب

یادوں کا فسوں امید کے سارے فسردہ آفتاب
ایک ہو سکتے ہیں

آؤ ان سے مل ملا کر اک جہان تازہ تر پیدا کریں
ان لہو کی بوندوں سے

رستے سجائیں
آنسوؤں کے رتجگوں سے آرزوئے چشم تر پیدا کریں