وہ اک ننھی سی لڑکی
برف کے گالے سے نازک تر
ہوا میں جھولتی شاخوں کی خوشبو
اس کا لہجہ تھا
چمکتے پانیوں جیسی سبک رو
اس کی باتیں تھیں
وہ اڑتی تتلیوں کے رنگ پہنے
جب مجھے تکتی
تو آنکھیں میچ لیتی
مگر اب وہ نہیں ہے
برف کے گالے بھی غائب ہیں
ہوا میں جھولتی شاخوں میں
لہجہ ہے نہ خوشبو ہے
چمکتے پانیوں پر تیرتے ہیں
کھڑکھڑاتے زرد رو پتے
وہ اڑتی تتلیاں جن کے پروں پر
اس کی رنگت تھی
خدا جانے کہاں کس حال میں ہیں
میں ہر اجڑے ہوئے موسم میں
اس کو یاد کرتا ہوں
تو آنکھیں میچ لیتا ہوں
نظم
آنکھ مچولی
شہزاد احمد