EN हिंदी
آنکھ ہی درد پہچانتی ہے | شیح شیری
aankh hi dard pahchanti hai

نظم

آنکھ ہی درد پہچانتی ہے

احسان اکبر

;

آنکھ ہی درد پہچانتی ہے
میں اس روٹ پر

پہیلی گاڑی کا مہماں تھا
بے طرح گھومتی گیند پر اب نفس جتنے انفاس کا اور مہمان ہے

ان کی گنتی مری داستاں میں نہیں
خاک کی ناف سے خاک کے بطن تک

چند ساعات کی روشنی
پوشیشیں بتیاں تازہ ماڈل کلب

تازہ رخ گاڑی اور بان اور گل چہرہ انٹرپریٹر
یہی چار آئنہ چہرہ

کہ چہرے میں تصویر ایام سے
رونقوں میں بسے اس طلسمات میں

دن جو ویراں کٹے
جو شیشیں گھنی رات میں کھو گئیں

سو گئیں
آسمانوں پہ خالی کا چاند

ناک نقشہ بکھرنے پہ قادر ہوا
جس کی تحویل میں دو مندے دائرے آنکھ کے ہیں

فقط آنکھ کے ہاتھ پر نقش ہیں آنکھ خالی نہیں