شام کی
لمحہ لمحہ
اترتی ہوئی
دھند میں
سر جھکائے ہوئے گھر کے
خاموش آنگن میں بیٹھے ہوئے
میری واماندہ آنکھوں کی جلتی ہوئی ریت سے
اک بپھرتے سمندر کی آوارہ لہریں اچانک الجھنے لگیں
شام کی
رستہ رستہ
اترتی ہوئی دھند میں
اس بپھرتے سمندر کی آوارہ لہروں کو
چوری چھپے
دفن کرنا پڑا
اس کھنڈر میں
جہاں مردہ صدیوں کے بھٹکے ہوئے راہ رو
چیختے پھرتے ہیں
اپنی ہی کھوج میں
خوف کا سانپ
رگ رگ میں خوں کی طرح سرسراتا رہا
رات کے چند بے کار لمحات کی راز داں
دیکھ پائے نہ بپھرے سمندر کی آوارہ لہروں کا چہرہ کہیں
اور پوچھے محبت سے اصرار سے
یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں کیا ہوا
کچھ مجھے بھی کہو
نظم
آنگن میں ایک شام
مظہر امام