چلو اک وعدہ کرتے ہیں
کہ ہم اور آپ سب بھی
ذہن اور دل کی کدورت صاف کرتے ہیں
بے ایمانی پر دیانت کبر پر اخلاص کو
نفرتوں کے زہر پر پیار کی مٹھاس کو
ہم غالب کرتے ہیں
چلو ہم یہ بھی کرتے ہیں
کہ اہل حق کو ان کا حق دلاتے ہیں
جو مجرم ہیں انہیں مجرم ہی کہتے ہیں
فریب و مصلحت کو آپ بھی اور ہم بھی چھوڑیں
قدم بوسوں کے بھیانک غول کو جو دیمک و جراثیم کی صورت
نظام فکر و فن برباد کرتا ہے
اسے ہم دور رکھتے ہیں اسے مذموم کہتے ہیں
سنا ہے جس زمیں جس قوم سے سچائی جاتی ہے
تو اس کے ساتھ ہی ایمان اور انصاف جاتا ہے
تو اپنے طور پر ان تینوں کو ہم تھامے رکھتے ہیں
چلو ہم ایسا کرتے ہیں
ضعیف و طفل کو بہو کو بیٹیوں کو ماں کو ہم مشترکہ کہتے ہیں
دھرم اور ذات کے
کثرت و قلت کے سارے پھولوں کو چن کر
انہیں خوش رنگ کرتے ہیں حسیں مالا پروتے ہیں
چلو ہم ایسا کرتے
یہ تحفہ آنے والی نسل کو ہم پیش کرتے ہیں
نظم
آنے والی نسل کا تحفہ
ابو بکر عباد