سناٹوں کی تہ میں غاصبانہ رفتار سے بڑھتا ہوا
کسی مسروقہ راز کا دبیز خلا
اور اس میں تیزی سے گردش کرتا ہوا
ایک جلا وطن سیارہ
کسی اجاڑ کہکشاں کو نہ چھوڑنے پر مصر
روشنی کی باقی ماندہ آواز
اور شکستہ آفاق کے خاکستری گہراؤ میں
سورج کے فوری غیاب کے
مٹتے ہوئے آثار
مجھے بچانا ہے
اس کائناتی ورثے کو
سرابوں کی تیزابی پھنکار کے ساتھ
زلزلوں کی جلتی پیٹھ کو ڈھال بنا کر
اور آگ کے فوارے کی کمک لے کر
جو کسی قدیم سیاف کی
پر خراش نیام میں محبوس ہے
اس لامتناہی خرابے کے لیے
مجھے ایجاد کرنی ہے ایک نئی بہار
موت کی مایوس اور مضمحل غضب ناکی کو
وقت کے غیر متوازن بوجھ سے تڑخی ہوئی زمینوں پر
از سر نو بالیدہ کر کے
ادھورے سایوں کے غول
تاریخ کے آسیبی چھکڑے کو
بے پروائی اور اناڑی پن سے کھینچتے ہیں
سیاروں کی گزر گاہیں
بھربھری اور مکدر ہو گئی ہیں
کائنات کے منہ پر
کھرونچے پڑ گئے ہیں
سیاسی جتنے گہرے عدم جتنے لمبے
روند میں آئی ہوئی پیلی پتیوں کی طرح
ستارے آسمان پر لیپ دیے گئے ہیں
ان کہ مرطوب جھلملاہٹ اندھیروں کو اکساتی ہے
اور نحوستوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے
میں ہزاروں نوری برس کے رقبے کو
زمان و مکان کی ناروا عمل داری سے
نکالنے کے لیے اٹھی ہوں
پگھلے ہوئے فولاد کے فوارے کی طرح
ایک پر غبار مسماری ایک خار دار دخانی اٹھان کے ساتھ
بنی نوع انسان
تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ
جرثوموں کی طرح میری آنکھ سے اوجھل رہو
میری راہ میں اپنے شہر اور ویرانے مت بچھاؤ
ورنہ مجھے غصہ یا ہنسی آ جائے گی
اور یہ طغیانی پہاڑ اور تنکے کو ہم وزن جانتی ہے
اے حشرات الارض! میرے پیر بہت بڑے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری زمین
خشخاش کے دانے کی طرح
میرے کف پا سے چپک جائے
اور مجھے پتا بھی نہ چلے
نظم
آندھی کا رجز
احمد جاوید