EN हिंदी
آمد شب | شیح شیری
aamad-e-shab

نظم

آمد شب

منیر نیازی

;

دئے ابھی نہیں جلے
درخت بڑھتی تیرگی میں چھپ چلے

پرند قافلوں میں ڈھل کے اڑ چلے
ہوا ہزار مرگ آرزو کا ایک غم لیے

چلی پہاڑیوں کی سمت رخ کیے
کھلے سمندروں پہ کشتیوں کے بادباں کھلے

سواد شہر کے کھنڈر
گئے دنوں کی خوشبوؤں سے بھر گئے

اکیلی خواب گاہ میں
کسی حسیں نگاہ میں

الم میں لپٹی چاہتیں ورود شب سے جاگ اٹھیں
ہے دل کو بیکلی سیاہ رات آئے گی

جلو میں دکھ کی لاگ کو لیے ہوئے
نگر نگر پہ چھائے گی