یہ تو برزخ ہے یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اک برس تھا کہ مہینہ ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں وہی انگارا زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گراں زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی
زیست کرنے کی مشقت ہی ہمیں کیا کم تھی
مستزاد اس پہ پروہت کا جنون تازہ
سب کو مل جائے گناہوں کا یہیں خمیازہ
ناروا دار فضاؤں کی جھلستی ہوئی لو!
محتسب کتنے نکل آئے گھروں سے ہر سو
تاڑتے ہیں کسی چہرہ پہ طراوت تو نہیں
کوئی لب نم تو نہیں بشرے پہ فرحت تو نہیں
کوچہ کوچہ میں نکالے ہوئے خونی دیدے
گرز اٹھائے ہوئے دھمکاتے پھرا کرتے ہیں
نوع آدم سے بہر طور ریا کے طالب
روح بے زار ہے کیوں چھوڑ نہ جائے قالب
زندگی اپنی اسی طور جو گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
نظم
عالم برزخ
فہمیدہ ریاض