بیوی مجھ سے کہتی ہے
سارا دن لیٹے رہنے
اور نظمیں لکھنے سے
گھر کیسے چلے گا
نظمیں روٹیاں تو نہیں
کہ بچوں کا پیٹ بھر سکیں
تم تو اپنا پیٹ
شاعری کی تلوار سے کاٹ کر
مستقبل کی کھونٹی سے لٹکا چکے ہو
لیکن ہمارے پیٹ اتنے شاعرانہ نہیں
سوچتا ہوں
بیوی ٹھیک کہتی ہے
نظمیں تو غیب سے اتر آتی ہیں
لیکن روٹیاں غیب کے تنور میں نہیں پکتیں
ویسے بھی شاعری کو زندہ رکھنے کے لیے
پیٹ پر روٹی باندھنی ضروری ہے
لیکن میں اسے درخواست کروں گا
وہ مجھے ایک نظم اور لکھ لینے دے
آخری نظم
جس میں آنے والی کل کے لیے
کوئی تعریف نہیں ہوگی
جس میں گزر جانے والی کل کے لیے
کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا
جس میں آج کے کسی دکھ کا
ماتم نہیں ہوگا
ہر لحاظ سے مکمل نظم
نظم
آخری نظم
جاوید شاہین