EN हिंदी
آخری ملاقات | شیح شیری
aaKHiri mulaqat

نظم

آخری ملاقات

جاں نثاراختر

;

مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں

میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

دو پاؤں بنے ہریالی پر
ایک تتلی بیٹھی ڈالی پر

کچھ جگمگ جگنو جنگل سے
کچھ جھومتے ہاتھی بادل سے

یہ ایک کہانی نیند بھری
اک تخت پہ بیٹھی ایک پری

کچھ گن گن کرتے پروانے
دو ننھے ننھے دستانے

کچھ اڑتے رنگیں غبارے
ببو کے دوپٹے کے تارے

یہ چہرہ بنو بوڑھی کا
یہ ٹکڑا ماں کی چوڑی کا

یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
السائی ہوئی رت ساون کی

کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی
کچھ ٹوٹی رسی جھولے کی

اک چوٹ کسکتی کولھے کی
سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں

اک چہرہ کتنی آڑوں میں
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی

اک لب پر باتیں نرمی کی
کچھ روپ حسیں کاشانوں کا

کچھ رنگ ہرے میدانوں کا
کچھ ہار مہکتی کلیوں کے

کچھ نام وطن کی گلیوں کے
مت روکو انہیں پاس آنے دو

یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ چاند چمکتے گالوں کے

کچھ بھونرے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی

کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک کھوئی کڑی افسانوں کی

دو آنکھیں روشن دانوں کی
اک سرخ دلائی گوٹ لگی

کیا جانے کب کی چوٹ لگی
اک چھلا پھیکی رنگت کا

اک لاکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے

وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے
مت روکو انہیں پاس آنے دو

یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ اجڑی مانگیں شاموں کی

آواز شکستہ جاموں کی
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے

کچھ گھنگرو ٹوٹی پائل کے
کچھ بکھرے تنکے چلمن کے

کچھ پرزے اپنے دامن کے
یہ تارے کچھ تھرائے ہوئے

یہ گیت کبھی کے گائے ہوئے
کچھ شعر پرانی غزلوں کے

عنوان ادھوری نظموں کے
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی

اک خشک قلم اک بند گھڑی
مت روکو انہیں پاس آنے دو

یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ رشتے ٹوٹے ٹوٹے سے

کچھ ساتھی چھوٹے چھوٹے سے
کچھ بگڑی بگڑی تصویریں

کچھ دھندلی دھندلی تحریریں
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے

کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے

کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے
کچھ اجڑی اجڑی دنیا میں

کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں

یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں
مت روکو انہیں پاس آنے دو

یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں

کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں