لے جاؤ درختوں کو لے جاؤ
میرے کس کام کے یہ درخت
لے جاؤ
میں تو مر رہا ہوں
میرے ساتھ جانے والے
کچھ ہی لوگ تو ہیں
میں نے بات کی ان راستوں سے
کہ جو راستے نہیں تھے
پھر میں ندی میں ڈوب گیا
مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے اس طرح
آری سے کاٹ دیا جائے گا
کہ درختوں میں بھی
میرا شمار نہیں ہوگا
میں نیند کے آخری حصہ میں کھڑا ہوں
ایک مزدور
بیلچے سے میری تصویر بنا رہا ہے
رات گزر رہی ہے
کہ اس کے گزرنے سے پہلے بھی
ایک رات گزر چکی ہے
میں بھلا کس رات کا حساب دوں
مجھے مارنے والوں میں
میرا لہو بھی شامل ہوگا
یہ مجھے معلوم نہیں تھا
میں مر رہا ہوں
کہ مجھے مارنے والی ذات
میری ریڑھ کی ہڈی سے
کلام کر چکی ہے
اس نے مجھے بٹن ٹانکنے والی معمولی سوئی سے چھید کے
جانکنی سے گزار دیا ہے
مگر اس سے پہلے
مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا
کہ میں کسی جہان میں
زندہ تھا بھی یا نہیں
قدیم کانسی کے برتنوں
میرے نام پر بہائے ہوئے
آنسوؤں کا ایک خزانہ تو محفوظ ہے
اور اس خزانے ہی پر تو میں نے اصرار کیا
کیونکہ میں جانتا ہوں
کہ یہ دنیا
کیول ایک چنتا گھر ہے
اس میں ہزاروں سال سے رہنے والے کو بھی
رہنے کے لیے
ایک پل بھی میسر نہیں
کیونکہ اک اک پل کا
دام چکانا پڑتا ہے
پہاڑ ایک ذرہ کے ہاتھوں
بک جاتا ہے
میں مر رہا ہوں
مگر اس سے پہلے
میں نے ایک التجا کی ہے
کہ مجھے اک اک پل کا
دام چکا کے مرنے دیا جائے
میرے نام کے
ان گنت نام درج ہیں
ٹھیک ہے
میرے وہ تمام الفاظ ہی تو
اکارت گئے نا
جو محض ایک جھوٹ کے نام
لکھے گئے
مگر اب کچھ جاننے کے لیے
رہ کیا گیا ہے
کہ اگر میرا سچ اتنا بڑا تھا
تو اسے چھوٹا کرنے کے لیے
سیاہی سے بھری دوات
قلم دان سے پرے
کیوں الٹ دی گئی
میں مر رہا ہوں
مگر مجھے اک اک پل کا
دام چکا کے مرنے دیا جائے
اور ایک درخت بھی
بچ گیا ہے
تو لے جاؤ اسے لے جاؤ
نظم
آخری مکالمہ
احمد ہمیش