نظموں کی کتاب میں
لوگوں کو اس کی آخری خواہش ملی
اس نے لکھا تھا
میری آنکھیں اس گلو کار کو دے دینا
جو اپنے مداح اور رنگ دیکھنا چاہتا ہو
اور میرا دل اس مجسمہ ساز کے لیے ہے
جو اپنا دل کسی مجسمے میں رکھ کے بھول گیا ہو
میرے ہاتھ اس ملاح کی امانت ہیں
جس کے ہاتھ ان دنوں کاٹ دئیے گئے تھے
جب کشتیاں جلا دی گئیں
اور دریا پار کرانا سب سے بڑا جرم تھا
اس نے کچھ لوگوں کو دوسرے کنارے تک پہنچا دیا
واپسی پہ سرکاری کارندے اس کے منتظر تھے
وہ اپنے ہاتھوں کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا
مگر میں ان لوگوں میں شامل تھا
جو اس کی کشتی میں دوسرے کنارے تک گئے تھے
آنکھیں دل اور ہاتھ
کسی بھی شخص کو زندہ رکھ سکتے ہیں
اور مار سکتے ہیں
نظم
آخری خواہش
ذیشان ساحل