EN हिंदी
آخری دن سے پہلے | شیح شیری
aaKHiri din se pahle

نظم

آخری دن سے پہلے

عزیز قیسی

;

اور دیکھو یہ وہ شخص ہے جو ازل سے یونہی چل رہا ہے
یونہی جاگتے میں بھی چلتا ہے سوتے میں بھی

اس کے اک ہاتھ میں قرص مہتاب ہے دوسرے
ہاتھ میں کرۂ ارض ہے پاؤں تلوار کی دھار پر ہیں

اور دیکھو کہ اسمات میں بھیڑ ہے یہ وہی لوگ ہیں
جو نہیں جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے

اور دیکھو کہ وہ شخص جو نیکیوں اور گناہوں کے مثقال
اٹھائے ہوئے چل رہا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس بھیڑ

میں کچھ کھلے لوگ ہیں کچھ چھپے لوگ ہیں وہ کسی
لمحے اس شخص پر اپنی جلتی ہوئی مٹھیاں پھینک دیں گے

وہ دھماکے چھپائے ہوئے مٹھیوں میں کھڑے ہیں
اور دیکھو اگر کرۂ ارض اور قرص مہتاب کو

رکھیں میزان میں ایک جانب ادھر ان دھماکوں
کو رکھیں تو دونوں برابر ہی نکلیں گے لیکن

یہ انصاف کیسے ہو؟ اندھا تو میزان اسی وقت
اٹھائے گا جب کہ وہ شخص پل سے سلامت گزر جائے

اندھے نے کب سے منادی یہی کر رکھی ہے
لاٹھی سے انجان کو بھی معافی نہیں مل سکے گی

اور دیکھو کہ وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں
رسیاں ان کی لمبی ہیں وہ اس لیے تو اندھے ہی

کو بخشتے ہیں نہ لاٹھی کو
ان کے دلوں پر سماعت بصارت پہ مہریں لگی ہیں

اور دیکھو کہ یہ پل بھی کیسا ہے خلا اس کے اوپر ہے
نیچے اندھیرا ہے دونوں سرے اس کے ظلمات میں ہیں

وہ جو کہتے ہیں ظلمات کے نیچے مردوں کی اک سلطنت ہے
کیا وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ مردوں کی وہ سلطنت کس جگہ ہے

کیا وہ یہ نہیں جاتے ہیں کہ وہ شخص وہ خود ہیں
ان کو جتا دو عدم کا خلا اور مردوں کی سلطنت تو

یہیں ہے تمہاری کھلی اور چھپی مٹھیوں میں!