آج تم ایسے ہنسے
جیسے کوئی آزاد کر دے سیکڑوں قیدی پرندے
شور کرتے آسماں کی سمت
یا بارش سمندر پر گرے رفتار میں
یا دھوپ کھل جائے بھری برسات میں
تم گونج ہو خوشیوں کے تہواروں کی
جو ہم بھولپن میں اپنے بچپن کے سفر میں بھول بیٹھے ہیں
تمہیں کس نے کہا
اتنا ہنسو کہ بال کھل جائیں
تمہیں کس نے کہا
یہ سادگی کا ذائقہ تجویز کر لو
کن بہادر راستوں پر تم نے
اپنے نام کی مہریں لگائی ہیں
تمہیں یہ دھوپ کا زیور ستمبر کی نشانی ہے
ستمبر میرے ہونٹوں میری آنکھوں میں سمایا ہے
ستمبر آ چکا ہے میرے دل میں
اور میرے جسم کے آہنگ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے
تم ہنسی میں گیت ہنستی جا رہی ہو
کتنا مشکل ہے ہنسی کا گیت میں تبدیل ہو جانا
بہت مشکل
مگر ایسے بہادر راستوں پر صرف آزادی
ہنسی کے گیت
اور تیرے کھلے بالوں میں
پروائی چلے گی
دیر تک اور دور تک
نظم
آج تم ایسے ہنسے
اصغر ندیم سید