EN हिंदी
آج پھر یہ کہہ رہا ہوں | شیح شیری
aaj phir ye kah raha hun

نظم

آج پھر یہ کہہ رہا ہوں

سلام ؔمچھلی شہری

;

آج پھر یہ کہہ رہا ہوں
یا مجھے اپناؤ یا میری کلا میں ڈوب جاؤ

یا تو اک پتھر بنو یا پھول بن کر مسکراؤ
میں تمہاری خواہشوں کے ساتھ سب کچھ سہہ رہا ہوں

آج پھر یہ کہہ رہا ہوں
زندگی اک فن ہے، فن مایا ہے، مایا ایک جال

میرا فن بخشے گا تم کو ظاہری حسن و جمال
جو بھی چاہو گی، ملے گا،

پھول جیون کا کھلے گا
تاج چاہو تاج دے دوں یا اجنتا مانگ دیکھو

جس طرح بھی دل کہے، میری کلا کا سوانگ دیکھو
جو بھی میرے فن سے مانگو گی، تمہیں مل جائے گا وہ

رنگ جو بھی دھیان میں لاؤ گی تم، مسکائے گا وہ
ہاں، مگر پھر کہہ رہا ہوں

جب یہ سب کچھ پا چکو گی، ایک دولت کھو بھی دو گی
مجھ سے نفرت ہے مگر یہ حسن نفرت کھو بھی دو گی

سب رہے گا
میں نہ ہوں گا

اور تم میری کلا کے مکر سے گھبرا اٹھو گی،
بیچ ساگر رو پڑو گی خود بخود چلا اٹھو گی

ایک ساگر کی طرف اب میں بھی شاید بہہ رہا ہوں
آج پھر یہ کہہ رہا ہوں.....