آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفان بلا
یہ جو طوفان کہ اس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے
ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے
ان کہی کوئی کہانی کوئی جلتا آنسو
آ کے دامن پہ ٹھہرتا ہوا بے کل شکوہ
چپ سی سادھی ہے مرے بت نے
مگر آنکھوں میں
میرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح
جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے
دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا
میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں
اپنے ٹوٹے ہوئے پر خود ہی جلا دیتی ہے
اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے
خود ہی اپنے لیے لکھتی ہے سزاؤں کی کتاب
اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
آج لرزش سی ہے پیروں میں تھکن سانسوں میں
کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو مری آنکھوں میں
آج لازم ہے کہ چپ چاپ گزر جائے شام
کوئی آہٹ ہو نہ دستک نہ ہی چھلکے کوئی جام
آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے
آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے
پھر نیا دن نئی مسکان جگا لائے گا
شب کا طوفان کناروں سے اتر جائے گا
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
نظم
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
شائستہ مفتی