EN हिंदी
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی | شیح شیری
aaj ki shab to kisi taur guzar jaegi

نظم

آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی

پروین شاکر

;

آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی

میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی

میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی

تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے
تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے

تیری بانہیں ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے
سب سے بڑھ کر مری جاں تو ہے ابھی میرے لیے

زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی!

آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہوگا
عشق حیراں ہے سر شہر صبا کیا ہوگا

میرے قاتل ترا انداز جفا کیا ہوگا!
آج کی شب تو بہت کچھ ہے مگر کل کے لیے

ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد

رنگ امید کھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا

جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اجڑ جائے گا