رات آئی ہے بہت راتوں کے بعد آئی ہے
دیر سے دور سے آئی ہے مگر آئی ہے
مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آئے گا
رات ٹوٹے گی اجالوں کا پیام آئے گا
آج کی رات نہ جا
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے
زہر بھی آب حیات لب و رخسار بھی ہے
زندگی خار بھی ہے زندگی دار بھی ہے
آج کی رات نہ جا
آج کی رات بہت راتوں کے بعد آئی ہے
کتنی فرخندہ ہے شب کتنی مبارک ہے سحر
وقف ہے میرے لیے تیری محبت کی نظر
آج کی رات نہ جا
نظم
آج کی رات نہ جا
مخدومؔ محی الدین