چاندنی رات ہے جوانی پر
دست گردوں میں ساغر مہتاب
نور بن بن کے چھن رہی ہے شراب
ساقیٔ آسماں پیالہ بدست
میں شراب سرور سے سرمست
فکر دوزخ نہ ذکر جنت ہے
میں ہوں اور تیری پیاری صورت ہے
رس بھرے ہونٹ مدبھری آنکھیں!
کون فردا پہ اعتبار کرے
کون جنت کا انتظار کرے
جانے کب موت کا پیام آئے
یہ مسرت بھی ہم سے چھن جائے
دامن عقل چاک ہونے دے
آج یہ قصہ پاک ہونے دے
غم کو ناپائیدار کر دیں ہم
موت کو شرمسار کر دیں ہم
لب سے لب یوں ملیں کہ کھو جائیں
جذب اک دوسرے میں ہو جائیں
میں رہوں اور نہ تو رہے باقی!
کس قدر دل نشیں ہیں لب تیرے
بادۂ احمریں ہیں لب تیرے
تیرے ہونٹوں کا رس نہیں ہے یہ
آب کوثر ہے انگبیں ہے یہ
شہد کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
آج کی رات جی رہا ہوں میں
آج کی رات پھر نہ آئے گی!
نظم
آج کی رات
حفیظ ہوشیارپوری