آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر کسے معلوم
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکر فردا اتار دے دل سے
عمر رفتہ پہ اشک بار نہ ہو
عہد غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
نظم
آج کی رات
فیض احمد فیض