آج کے بعد اگر جینا ہے
آج کا سب کچھ تج دینا ہے
ایک جھلک میں
ایک جھپک میں
زخمی چھلنی اس پیکر کو
اپنے لہو کی آگ میں
جل جانے دو
گل جانے دو
ارمانوں سے باہر آؤ
اپنے آپ سے آگے بڑھ جاؤ
سیماؤں سے پار اتر کر
دیکھو
کیسی کھلی فضا ہے
ہر شے میں جیسے
آنے والی دنیاؤں کا بیج چھپا ہے
بیجوں سے پیڑ سنہرے پیڑ
پیڑوں کے ہر کھولر میں
پنچھی انڈے سیتے ہیں
انڈوں کے خول سے آنے والی
بے آواز سروں کی گونج سنو
اور ان سے اپنے گیت بنو
نظم
آج کے بعد
قاضی سلیم