خواب کی سیڑھیاں
لمحہ لمحہ
اترتا ہوا اور چڑھتا ہوا
دھوپ بادل میں لوٹیں لگاتا ہوا
پھول سے خار سے
وہ گزرتا ہوا
آرزو کی تھکن
تشنگی کی شکن
دل پہ مجمع کیے
آج
آنگن کے تاریک گوشے میں
انبار پر کوڑے کے
زنگ آلود
اک قفل سا رہ گیا ہے
کلید وفا سے
نہیں جس کا
کوئی بھی ناتا
نظم
آج
جعفر ساہنی