کار فرما پھر مرا ذوق غزل خوانی ہے آج
پھر نفس کا ساز گرم شعلہ افشانی ہے آج
پھر نگاہ شوق کی گرمی ہے اور روئے نگار
پھر عرق آلود اک کافر کی پیشانی ہے آج
پھر مرے لب پر قصیدے ہیں لب و رخسار کے
پھر کسی چہرے پہ تابانی سی تابانی ہے آج
حسن اس درجہ نشاط حسن میں ڈوبا ہوا
انکھڑیاں بے خود شمیم زلف دیوانی ہے آج
لرزش لب میں شراب و شعر کا طوفان ہے
جنبش مژگاں میں افسون غزل خوانی ہے آج
وہ نفس کی زمزمہ سنجی نظر کی گفتگو
سینۂ معصوم میں اک طرفہ طغیانی ہے آج
یاں بایں عالم غرور یوسفیت بھی نہیں
واں زلیخائی بہ عزم چاکدامانی ہے آج
واں اشارے ہیں بہک جانا ہی عیش ہوش ہے
ہوش میں رہنا یقیناً سخت نادانی ہے آج
کش مکش سی کش مکش میں ہے مذاق عاشقی
کامراں سی کامراں ہر سعئ امکانی ہے آج
حسن کے چہرے پہ ہے نور صداقت کی دمک
عشق کے سر پر کلاہ فخر انسانی ہے آج
شوق سے موقع شناسی کی توقع بھی غلط
میں نے ان کی شکل بھی مشکل سے پہچانی ہے آج
نظم
آج
اسرار الحق مجاز