EN हिंदी
آئندگاں کی اداسی میں | شیح شیری
aaindagan ki udasi mein

نظم

آئندگاں کی اداسی میں

انجم سلیمی

;

جب دنیا میرے دکھ بٹانے آئی
میرے سارے دکھ چرا لیے گئے تھے

بھری بہار میں میرے آنسوؤں کے بیج جلائے گئے ہیں
آج دیر بعد نئی محبت کو منسوخ کر کے

پہلی تنہائی سے لپٹ کر سونا اچھا لگا ہے
آئندگاں کی اداسی لپیٹ کر

ایک پرانی محبت کا پرسا وصول کرتے ہوئے بھی
دل نہیں بھرا

جذبوں کی کتر بیونت اور خالی لفظوں میں دکھوں کے پیوند لگاتے
تھک گیا ہوں

اسی ادھیڑ بن میں
خود کو سینت سینت کر رکھتے ہوئے

اپنے پیرہن میں
ایک خواب تک سستانے کی فرصت نہیں

سو نئے دکھ کمانے کی عجلت میں
تمہارا سواگت ہے دوست!!!