EN हिंदी
آئینہ | شیح شیری
aaina

نظم

آئینہ

ملک احسان

;

میں نے اک سپنا دیکھا ہے
رات کا سورج اپنی کالی زلفیں کھولے جاگ رہا ہے

شہر میں سناٹا پسرا ہے
چاند کی اجلی چادر تانے میں اپنے گھر میں سویا ہوں

اتنے میں اک شور ہے اٹھتا
شب خوں مارا شب خوں مارا

دیکھو شیطاں پھر آ نکلے
میں نے بھی سب اپنی متاع زہد و تقویٰ صبر و قناعت

اور اعمال کی سونا چاندی
اک اک کر کے گھر میں دیکھی

وہ سب اپنی جا پہ نہیں تھیں
اتنے میں اک شخص کو دیکھا

میرے مد مقابل تھا وہ
کمرے میں یہ کیسے آیا

سوچ کے جب حیران ہوا تو
بڑھ کر اس کو چھونا چاہا

لیکن یہ تو آئینہ تھا