ذات کا آئینہ خانہ
جس میں روشن اک چراغ آرزو
چار سو
زعفرانی روشنی کے دائرے
مختلف ہیں آئینوں کے زاویے
ایک لیکن عکس ذات؛
اک اکائی پر اسی کی ضرب سے
کثرت وحدت کا پیدا ہے طلسم
خلوت آئینہ خانہ میں کہیں کوئی نہیں
صرف میں!
میں ہی بت
اور میں ہی بت پرست!
میں ہی بزم ذات میں رونق افروز
جلوہ ہائے ذات کو دیتا ہوں داد!
جب ہوائے شوخ کی موج شریر
توڑ جاتی ہے کسی کھڑکی کے پردے کا جمود
تو بگڑ جاتا ہے کھیل
دیو قامت عکس کو بونا بنا دیتی ہے باہر کی کرن
اے مری نا مستعد مجہول ذات
اے کہ تو از خود نظر بند آئینہ خانے میں ہے
سوچتی ہے تو کہے گی ان کہا
اور کچھ کہتی نہیں!
سوچتی ہے تو لکھے گی شاہکار
اور کچھ لکھتی نہیں!
سوچتی ہے تو جہانداری کی بات
اور کچھ کرتی نہیں!
سوچنے ہی سوچنے میں ساعت تخلیق جب
تیرے شل ہاتھوں سے جاتی ہے پھسل
تو بلک پڑتی ہے تو
اے مری نا مستعد مجہول ذات
خلوت آئینہ خانہ سے نکل
اے چراغ آرزو
جس طرف ضو پاش ہو
جس طرف سے شاہراہ جستجو
تاش اور شطرنج کے شاہوں سے برتر ہے کہیں
وہ پیادہ جو چلے
وہ پیادہ جو چلے خود اپنی چال
اے مری نا مستعد مجہول ذات
کوئی فکر!
کوئی کام!
کوئی بات!
نظم
آئینہ خانے کے قیدی سے
عمیق حنفی