میں جب کبھی
دو گھڑی
غور سے آئینہ دیکھتا ہوں
تو ماضی کے
الجھے ہوئے روز و شب
کی شناسا لکیروں
میں دھندلی تصاویر
ماحول سے بے خبر بولتی ہیں
کہ جیسے کسی اجنبی شخص کی
زندگی کی حسیں ساعتوں
دل ربا حسرتوں
اور
امنگوں کے کوہ ندا کے
طلسمات خفتہ کے در کھولتی ہیں
میں حیران سا
دیر تک سوچتا ہوں
میں اپنے سراپا کے مٹتے نشانات کو
حال کے زائچوں سے
جدا جانتا ہوں
مجھے وقت کی تیز رفتار سے
جسم کی ہار سے
خوف آتا ہے
پھر بھی
گھڑی دو گھڑی کے لیے
آئینہ دیکھتا ہوں
نظم
آئینہ دیکھتا ہوں
اختر ضیائی