زمانے بھر میں آئینہ صداقت کی علامت ہے
مگر میں اس کا منکر ہوں
بہت جھوٹا ہے آئینہ
کبھی وہ دیو قامت ہستیوں کو ایک دم بونا دکھاتا ہے
طلسماتی ہے آئینہ
کبھی پستہ قدوں کا قد بہت اونچا دکھاتا ہے
بہت بہروپیا ہے وہ
کوئی فربہ ہو تو اس کو بہت دبلا دکھاتا ہے
بہت ہی مسخرہ ہے وہ
چلو جانے بھی دو کہ آئنہ انسان کی فطرت میں شاید ڈھل گیا ہوگا
مگر کچھ شعبدہ بازی کی حد بھی ہے
یہ آئینہ تو مجھ سے بھی ہمیشہ مکر کرتا ہے
جو میرا ہاتھ ہو سیدھا تو وہ الٹا دکھاتا ہے
اگر الٹا دکھاتا ہوں تو پھر سیدھا دکھاتا ہے
بہت جھوٹا ہے آئینہ
مگر آئینۂ ایام میں تکذیب آئینہ کی حیثیت بھلا کیا ہے
خدا جانے
مگر تاریخ کہتی ہے
یہی تکذیب آئینہ، زمانے بھر کے شیشہ گر قبیلے کے لیے خطرات کا تصدیق نامہ ہے
مری تضریب پیہم سے یہ آئینوں کے سوداگر شکستہ ہیں
شکستہ کیفیت میں مجھ سے یہ دریافت کرتے ہیں
کہ آخر کون ہو تم جی
تمہیں ان آئنوں سے دشمنی کیوں ہے
ہمیشہ آئنوں کا منہ چڑھاتے ہو، سدا تضحیک کرتے ہو
تم آخر چاہتے کیا ہو
تو لو میں آج یہ اعلان کرتا ہوں
مرے اس عہد کے شیشہ گرو، سوداگرو سن لو!
سنو، آگاہ ہو جاؤ
میں شاعر ہوں
میں آئینے کو آئینہ دکھاتا ہوں!
نظم
آئینہ اور میں
خالد مبشر