EN हिंदी
آگہی کی دعا | شیح شیری
aagahi ki dua

نظم

آگہی کی دعا

وحید اختر

;

اے خدا اے خدا
میں ہوں مصروف تسبیح و حمد و ثنا

گو بظاہر عبادت کی عادت نہیں ہے
رند مشرب ہوں زہد و ریاضت سے رغبت نہیں ہے

مگر جب بھی چلتا ہے میرا قلم
جب بھی کھلتی ہے میری زباں

کچھ کہوں کچھ لکھوں
تیری تخلیق کا زمزمہ مدعا منتہا

حرف جڑ کر بنیں لفظ تو کرتے ہیں تیری حمد و ثنا
یا خدا یا خدا

میرے اطراف ہیں پیٹ خالی بدن نیم جاں
کوئی تکتا ہے جب میرا دست تہی

شرم آتی ہے مجھ کو خدائے غنی
سوچتا ہوں میں اپنی زباں رہن رکھ دوں کہیں

رزق سے خالی پیٹوں کو بھر دوں
جو ہیں نیم جاں ان میں جان پھونک دوں

اور اپنے لیے تھوڑی آسائشیں مول لے آؤں بازار سے
اپنے بچوں کی ضد پوری کر دوں

جو واقف نہیں ہیں معیشت کے انداز و رفتار سے
پھر یہی سوچتا ہوں

خدا اے خدا
کیا زباں رہن ہو کر بھی تیری اطاعت کرے گی

کیا قلم بک کے بھی نام تیرا ہی لے گا
دوسروں کو خدا مان کر

وہ نہ کرنے لگیں ماسوا کی بھی حمد و ثنا
اے خدا اے خدا ہے دعا

آخری سانس تک
یہ قلم یہ زباں

لکھتے رہتے ہیں لاالہ