مرے اپنے حروف کا جال
مری روح پر تنگ ہوتا جا رہا ہے
اور اب تو مری روح کی ہڈیاں
چٹخ رہی ہیں
اور سراب آگہی کے سامنے
سر پٹخ رہی ہیں
''سکوت'' کے حروف
جنہوں نے میری سماعتوں سے
شور کا لہو نچوڑ لیا ہے
یہ ''روشنی'' کے حروف
کہ جنہوں نے مری آنکھ کے
کانچ کے دیوں میں رکھا ہوا
تیل پی لیا ہے
یہ ''ذائقے'' کے حروف
جنہوں نے مری زبان کو
لبوں کے درمیان مار کر
دفن کر دیا ہے
اور یہ اضطراب
جس نے میرے پیر کی رگوں کی جگہ
سفر کی خواہشوں سے بنی ستلیاں کھینچ دی ہیں
اور یہ آگہی
جس نے مری روح کی بچی کھچی
ہڈیاں بھی سمیٹ دی ہیں
نظم
آگہی کا جال
ثروت زہرا