EN हिंदी
آگ | شیح شیری
aag

نظم

آگ

سلام ؔمچھلی شہری

;

اب قلم میں
ایک رنگیں عطر بھر لو

تم حسیں پھولوں کے شاعر ہو کوئی ظالم نہ کہہ دے
شعلہ احساس کے کاغذ پہ کچھ لکھنے چلا تھا

اور کاغذ پہلے ہی اک راکھ سا تھا
بات واضح ہی نہیں ہے

شاعر گل
دائرے سب مصلحت بینی کے اب موہوم سے ہیں

بات کھل کر کہہ نہ پائے تم
تو بس زیرو رہوگے

اب قلم میں آگ بھر لو
آگ تم کو راکھ کر دینے سے پہلے سوچ لے گی

زندہ رہنے دو اسے
شاید یہ میری لاج رکھ لے

لوگ اب تک آگ کے معنی غلط سمجھے ہوئے ہیں
آگ آنسو آگ شبنم

آگ آدم کے رباب اولیں کا گیت