میں آگ بھی تھا اور پیاسا بھی
تو موم تھی اور گنگا جل بھی
میں لپٹ لپٹ کر
بھڑک بھڑک کر
پیاس بجھاتی آنکھوں میں بجھ جاتا تھا
وہ آنکھیں سپنے والی سی
سپنا جس میں اک بستی تھی
بستی کا چھوٹا سا پل تھا
سوئے سوئے دریا کے سنگ
پیڑوں کا میلوں سایہ تھا
پل کے نیچے اکثر گھنٹوں
اک چاند پگھلتے دیکھا تھا
اب یاد میں پگھلی آگ بھی ہے
آنکھوں میں بہتا پانی بھی
میں آگ بھی تھا اور پیاسا بھی
نظم
آگ کی پیاس
ابرارالحسن