مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار نہ انگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار نہ سیاروں کا
زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے
اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا
رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا
صبح حیراں بھی خفا، شام حریفاں بھی خفا
خود کو دیکھا ہے تو اس شکل سے خوف آتا ہے
ایک مبہم سی صدا گنبد افلاک میں ہے
تار بے مایہ کسی دامن صد چاک میں ہے
ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے
جاگ اے روح کی عظمت کہ مری خاک میں ہے
نظم
آدمی
مصطفی زیدی