EN हिंदी
آدمی | شیح شیری
aadmi

نظم

آدمی

الیاس بابر اعوان

;

لا انتہا جہان مجسم سے بھی سوا
لا منتہا زمانوں میں رہتے ہوئے یہ ابد

قرنوں سے رینگتی ہوئی تقویم کائنات
آب و گل و شعور سر دو جہاں عدم

لا فلسفہ نہایت فہم پیمبری
ذوق نمو کی ہاتھ میں ریکھائیں دم بدم

کیا جانیے کہ کتنے برس کا ہے یہ چراغ
تہذیب سوختہ ہے ایاغ حروف میں

فکر و خرد کی بحر و تلاطم میں کشتیاں
ابھریں کہیں تو رزق سمندر کہیں ہوئیں

اس اہتمام خواب تحیر میں میں نژاد
تنہا کھڑا ہوں اپنی نمائش کے واسطے

میں بھیڑ کے نواح میں معدوم آدمی